Visit Our Official Web جنرل سید عاصم منیر سے بغاوت! Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

جنرل سید عاصم منیر سے بغاوت!

 


آرمی کے ورکنگ طریقہ کار کو سمجھنے کے لئے یہ تحریر لازماً 
پڑھیں

جنرل عاصم منیر سے بغاوت

:::::::::::::::::::::::::::::

ایک دو روز سے یہ گمراہ کن پروپیگنڈہ چل رہا ہے کہ 9 مئی کو دراصل جنرل عاصم منیر کے خلاف بغاوت کا منصوبہ تھا جو ناکام ہوگیا۔ اور یہ پروپیگنڈہ کوئی اور نہیں بلکہ پٹواری کر رہے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ فوج کے اذلی دشمنوں کا قیام پچھلے چند سال سے نون لیگ میں ہی ہے۔ کہنے والے یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ 9 مئی کی تاریخ کا انتخاب اس لئے ہوا تھا کیونکہ اس دن آرمی چیف ملک میں نہیں تھے۔ مگر یہ چوتیے یہ نہیں بتاتے کہ آخر اس پلان پر عمل کی کوئی ادنی ترین کوشش بھی کیوں نہیں ہوئی ؟

پاکستان کی فوج سے متعلق کچھ باتیں اچھی طرح ذہن میں بٹھا لیجئے اس سے آپ اس طرح کے گمراہ کن پروپیگنڈوں سے محفوظ رہیں گے۔

پاکستان اگرچہ ملک تیسری دنیا کا ہے مگر اس کی فوج ترقی یافتہ ممالک میں سے بھی بہت سوں سے بہت آگے ہے۔ اس کا اندازہ آپ اسی سے لگا لیجئے کہ پچھلے سال جنرل باجوہ برطانیہ کی رائل ملٹری اکیڈمی کی سالانہ تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ دوسری جنگ عظیم تک برطانیہ سپر طاقت رہا ہے اور اس کی فوج دنیا کی سب سے بڑی فوج تھی۔ اور یہ وہی برطانیہ ہے جس کی عسکری تاریخ صلیبی جنگوں اور رچرڈز دی لائن ہارٹ تک جاتی ہے۔ ایسا ملک اپنی ملٹری اکیڈمی کی تقریب میں کسی للو پنجو فوج کے سربراہ کو مہمان خصوصی کے طور کبھی بھی مدعو نہیں کرے گا۔

سوال یہ ہے جو ملک خود تیسری دنیا کا ہے اس کی فوج دنیا کی صف اول کی افواج میں کیسے شامل ہوگئی ؟ جواب بہت ہی سادہ ہے۔ یہ فوج یوں نہیں بنی تھی کہ ایک دن مسلمانانِ پاکستان نے سوچا کہ ہم نے طاقتور فوج بنانی ہے۔ پھر وہ بیٹھے اور اس کا خاکہ بنا کر رنگ بھر دئے۔ بلکہ یہ برٹش آرمی سے بنی بنائی نکلی تھی۔ اپنے وقت کی سپر طاقت سے نکلنے والی اس فوج کے پاس ڈسپلن اور ضابطے وہی تھے جو اس سپر طاقت نے تشکیل دے رکھے تھے۔ دنیا کی ٹاپ ملٹری سے جنم لینے والی اس فوج نے آگے چل کر انہی بنیادوں پر اپنا ارتقائی سفر آگے بڑھایا ہے۔ اور اسی وجہ سے یہ دنیا کی صف اول کی افواج میں شامل ہے۔ 

اس فوج کے انتظامی ڈھانچے کے حوالے سے یہ بات ذہن میں رکھئے کہ بطور ادارہ اس کے چند ذیلی ادارے اور پوزیشنز بہت ہی اہم ہیں۔ طاقت کا سارا ارتکاز وہیں ہے مگر اجتماعی صورت میں، انفرادی نہیں۔ اور ان کی ساخت ایسی ہے کہ کسی بغاوت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔  مگر ان ذیلی شعبوں یا پوزیشنز سے بھی زیادہ اہم چیز ہے "قومی سلامتی پالیسی" یہ دستاویز ہے جو دس سے پندرہ سال میں ایک بار ری وزٹ ہوتی ہے۔ اور اس کے خلاف اگر تینوں مسلح افواج میں سے کسی ایک کا سربراہ بھی چلا جائے تو سمجھو مر گیا۔ یہ محض ہوائی بات نہیں ہے، ایسا ہوچکا ہے۔ آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ اس فوج نے بھٹو کو مار دیا۔ کبھی کسی جرنیل کو سزا ئے موت ہوئی ؟ ہم تفصیل نہیں بتا سکتے بس اتنا جان لیجئے کہ ہاں ہوئی۔ بہت ٹاپ پر  مختلف ادوار کے چار کیسز تو ہمیں معلوم ہیں۔ مگر وہ یہ کام حساسیت کے سبب چپ چاپ کر لیتے ہیں۔ اس کی پریس ریلیز جاری نہیں کرتے۔مذکورہ چار کے معاملے میں وہ کسی کورٹ مارشل وغیرہ کے تکلف میں بھی نہیں پڑے۔ اور ان میں سے دو تھے بھی فور سٹار !

اب آجائیں فوج کی اہم ترین پوزیشنز کی طرف۔ سب سے طاقتور ظاہرہے آرمی چیف ہوتا ہے۔ پوری فوج اس کے ایک اشارے پر حرکت میں آتی ہے۔ مگر اس کی طاقت جتنی بھی بڑی ہو جب معاملہ قومی سلامتی پالیسی سے انحراف کا آجائے تو پھر بہت زیادہ حساسیت کی صورت میں انا للہ وانا الیہ راجعون سے لے کر سوئم تک تمام مراحل بحسن و خوبی طے ہوجاتے ہیں اور بہت زیادہ حساسیت نہ ہو تو آرمی چیف کو بے اثر کردیا جاتا ہے۔ جیسا کہ جنرل مشرف اور جنرل باجوہ دونوں کو ان کے آخری سال کردیا گیا تھا۔

دوسری اہم ترین پوزیشن چیف آف جنرل سٹاف کی ہے۔ یہ فوج کا ایڈمنسٹریٹر ہوتا ہے۔ انتظامی امور میں تمام کورکمانڈرز اسی کے تحت ہوتے ہیں۔ اور کسی کی مجال نہیں کہ اسے نو کہہ سکے۔ جب ادارہ اپنے آرمی چیف کو بے اثر کرنے پر آتا ہے تو لیڈ چیف آف جنرل سٹاف ہی کرتا ہے۔ پچھلے سال نومبر میں ارلی ریٹائرمنٹ لینے والے جنرل اظہر عباس نے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید دونوں کو جام کردیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں دوسروں کے فون استعمال کرنے پر مجبور ہوگئے تھے مگر فوج کا "فیصلہ" نہیں بدلواسکے تھے۔

تیسری اہم ترین پوزیشن ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کی ہے۔ فوج کا پورا ملٹری آپریشن اس کے ڈائریکٹریٹ سے چلتا ہے۔ جنگی حکمت عملی سے لے کر دوران جنگ اس پر عملدرآمد وغیرہ سب یہیں سے کنٹرول ہوتا ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ ڈائریکٹریٹ فوج کا دماغ ہے۔ تمام کورز اور ذیلی ادارے یہیں سے کنٹرول ہوتے ہیں۔ اس کا سربراہ میجرجنرل ہوتا ہے مگر لیفٹینٹ جنرل اس کے پابند ہوتے ہیں۔بڑے حربی شعور والا کمانڈر ہی اس ڈائریکٹریٹ کا ڈی جی بنتا ہے۔

چوتھا اہم ادارہ ہے ملٹری انٹلی جنس۔ یہ ادارہ صرف سراغ رسانی کے لئے وقف ہے۔ اس کی دو ہی ذمہ داریاں ہیں۔ یہ دنیا بھر میں فوجی جاسی کرتا ہے۔  اور افواج پاکستان پر گہری نظر رکھتا ہے۔ یعنی اپنے ادارے سے وابستہ چھوٹے بڑے ہر طرح کے لوگوں کی بھی نگرانی کرتا ہے۔ حتی کہ آرمی چیف پر بھی نظر رکھتا ہے کہ خدا نخواستہ دشمن سے پینگیں تو نہیں بڑھا رہا۔ اس کی نظر سے کوئی بھی مستثنی نہیں ہے۔

اس کے بعد آجاتی ہے آئی ایس آئی۔  اس کا دائرہ چونکہ سویلین حدود کا بھی احاطہ کرتا ہے،  اس کی افرادی قوت بھی 70 فیصد سویلینز پر مشتمل ہےاس لئے ہم نے اسے ملٹری انٹیلی جنس کے بعد رکھا ورنہ ہے یہ اس سے مقدم۔  امریکی سی آئی یا برطانوی ایم آئی سکس کی طرح یہ پاکستان کی پریمئر ایجنسی ہے۔ یہ صرف جاسوسی نہیں کرتی بلکہ دنیا بھر میں آپریشنز بھی کرتی ہے۔ ہر طرح کے سرد اور گرم آپریشنز۔

اس کے بعد آجاتی ہیں تین کورز جن کے کمانڈرز بے حد اہم ہوتے ہیں۔ پہلی کور تو پنڈی کی 10 کور ہے۔ اس کی اہمیت دو وجہ سے ہے۔ پہلی یہ کہ اس کی حدود میں پاکستان کا دارالحکومت اور جی ایچ کیو دونوں واقع ہیں۔ دوسری وجہ یہ کہ کشمیر اس کی حدود میں ہے جو پاکستان اور بھارت کے مابین سلگتا مسئلہ ہے۔ دوسری اہم کور ملتان کور ہے۔ یہاں پاکستان کا آرمڈدویژن تعینات ہے۔ اس کور کی اہمیت کی وجہ یہ ہے پاکستان کا  عسکری لحاظ سے سب سے ویک پوائنٹ یہی ہے۔ بھارت کا بارڈر بہت قریب ہے اور اسے یہ ایڈوانٹج حاصل ہے کہ ہماری جانب تو ملتان جیسا بڑا شہر واقع ہے جس تک رسائی کا مطلب ہے پنجاب کا سندھ سے کٹ جانا۔ جبکہ بھارت کی جانب صحرا ہے۔ کسی بڑی جنگ کی صورت میں ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ اسی علاقے میں ہونی ہے۔ بھارت کی کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن اسی ایدوانٹج کو پیش نظر رکھ کر تشکیل دی گئی تھی۔ اور ہم نے چھوٹے ایٹمی ہتھیار بھی اسی علاقے کے دفاع کے لئے بنائے ہیں۔ تیسری اہم کور ہے منگلہ کور۔ یہ پاکستان کی سٹرائیک کور ہے۔ کسی ممکنہ جنگ کی صورت اس کور کام دفاع نہیں بلکہ جنگ کو بھارت کی حدود میں پہنچانا اور کشمیر کو بھارت سے کاٹنا ہے۔اگر نقشے پر اس کی لوکیشن دیکھیں گے تو اندازہ ہوجائے گا کہ یہ کور بھارت کے نرخرے کے بالکل قریب موجود ہے۔

اب سمجھنے کا کلیدی نقطہ یہ ہے کہ بظاہر یہ تمام ذیلی ادارے اپنی انفرادیت کے ساتھ اپنی الگ الگ طاقت رکھتے ہیں۔ لگتا یوں ہے کہ یہ سب بس آرمی چیف سے جڑے ہوتے ہوں گے اور وہیں سے آڈرز لے کر کام کرتے ہوں گے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ تمام ادارے ایک طے شدہ نظام کے تحت باہم مربوط ہیں۔ پوری چین اور چینل آف کمانڈ موجود ہے۔ یہاں تک کہ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس بھی ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز سے مربوط ہیں۔ اس ڈائریکٹریٹ سے اوپر چیف آف جنرل سٹاف بیٹھا ہے اور اس سے اوپر آرمی چیف۔ اور یہ سسٹم اتنا موثر ہے کہ خود ان پوزیشنز میں سے کسی ایک پوزیشن پر بیٹھا بندہ بھی اگر گڑ بڑ کرے تو وہ بھی نہیں بچ سکتا۔ اور فوج بطور ادارہ اسی طرح حرکت  کرتی ہے۔

 ایک قومی سلامتی پالیسی ہے جس سے جو بھی انحراف کرے گا، دفتر یا جان، دونوں میں سے کسی ایک چیز سے جائے گا۔ پھر چاہے وہ آرمی چیف ہی کیوں نہ ہو۔جیسا کہ موجودہ قومی سلامتی پالیسی میں یہ شامل کرلیا گیا ہے کہ اگلے پندرہ سال تک فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس نے بھی اس سے انحراف کیا مذکورہ سسٹم اس سے نمٹ لے گا۔ آپ اسی سے اندازہ لگا لیجئے کہ 9 مئی کو جو لاہور کا کور کمانڈر تھا اس تک اس کے ریٹائرڈ بریگیڈئر والد کی بھی اب رسائی نہیں ہے۔  اس کا ایک بھائی اور بہن فوج میں بڑی پوزیشنز پر موجود ہیں۔ ان کی بھی رسائی نہیں ہے۔

 یاد ہے ہم نے پہلے ایک ون لائنر لکھا تھا کہ جنرل عاصم منیر کی ٹیم میں میچ فکسر موجود ہیں۔ ان کے ہوتے یہ نہیں جیت سکتے۔ اور کچھ دیر بعدچند سطر کی دوسری پوسٹ کی جس میں کہا کہ کور کمانڈر لاہور کا کورٹ مارشل کیا جائے ؟ ویسا ہی ہوا کہ نہیں ؟ ہم نے یہ دونوں پوسٹیں اسی لئے کی تھیں کہ ہم فوج کے سسٹم کو سمجھتے ہیں۔ ہمیں معلوم تھا اس لیول کے واقعے میں فوج کا اب اپنے سسٹم کے مطابق چلن کیا ہونا چاہئے۔ کورکمانڈر بڑی چیز ہوتا ہے مگر ادارے سے تو آرمی چیف بھی بڑا نہیں۔ 

اب آجائیں اس شوشے کی طرف جو پچھلے دودن سے چھوڑا جا رہا ہے کہ آرمی چیف قطر میں تھے لھذا ان کے خلاف بغاوت کے لئے وہی دن چن لیا گیا۔ ہم سوال اٹھا چکے کہ پھر  آرمی چیف کے خلاف بغاوت کا آغاز تک کیوں نہ ہوسکا ؟ پلان تھا تو عمل کیوں نہیں ہوا ؟ کیا جنرل عاصم منیر اسم اعظم پڑھ کر اسی لمحے قطر سے جی ایچ کیو آ پہنچے ؟ اور پھر سب سے لغو بات یہ کہی جا رہی ہے کہ منصوبے کے مطابق جنرل شمشاد مرزا نے کنٹرول سنبھالنا تھا۔ ان عقل کے اندھوں کو اتنا بھی نہیں پتہ کہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف  کے پاس کمانڈ تک نہیں ہوتی۔ اس کے نیچے صرف اس کے ڈائریکٹریٹ کا سٹاف ہی ہوتا ہے۔ کوئی فورس اس کے پاس نہیں ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں سے قبل والے دور میں تو اس کا چیئرمین محض مکھیاں مارتا تھا۔ اب تھوڑا سا اضافہ یہ ہوگیا ہے کہ ایٹمی ہتھیار چونکہ تینوں مسلح افواج کے پاس ہیں اور ان کے استعمال کا فیصلہ ایک بڑا فیصلہ ہوگا لھذا اس فیصلے میں تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کا آن بورڈ ہونا ضروری ہے سو یہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کا فورم ہے جہاں یہ اجتماعی فیصلہ ہونا ہے۔ اور وہاں کرسی صدارت پر بیشک چیئرمین بیٹھا نظر آتا ہے مگر چلتی وہاں بھی آرمی چیف کی ہے۔ کیونکہ فوج کا کمانڈر وہ ہے چیئرمین نہیں۔ اس عہدے پر بیٹھا شخص ایک ہی وقت میں دکھی بھی ہوتا ہے اور خوش بھی۔ دکھی اس بات پر  کہ  اس کے پاس کمانڈ نہیں ہوتی۔ خوش اس بات پر کہ چلو فورسٹار جنرل تو ہوں ناں ۔ اس سے زیادہ طاقتور تو کسی بھی کور کا ڈویژن کمانڈر ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک پورے ڈویژن کو کمانڈ کر رہا ہوتا ہے۔ 

سو اے چوتیاگانِ پٹوار خانہ ! آپ کا کیا خیال ہے اپنے آرمی چیف کے خلاف کسی حرامی پنے کی صورت میں مذکورہ بالا ذیلی ادارے پہلا کام یہ کرتے کہ سب بیک زبان کہتے

"اوےحلوالدار بشیر ! جلدی سے چیف کو فون ملا  تاکہ ان سے پوچھیں کہ کیا کرنا ہے!"

نہیں، یہ ادارے خود کار طور پر حرکت میں آکر پہلے فتنے سے نمٹتے اور پھر قطر میں اپنے چیف سے رابطہ کرتے۔ بھول گئے جب مشرف ہوا میں تھا اور نواز شریف نے پلاسٹک کے بیج لگا کر جنرل ضیاء الدین کو آرمی چیف بنا یا تو فوج بالکل اسی طرح حرکت میں آئی تھی۔ پہلے ضیاء الدین اور نواز شریف سے نمٹے اور اس کے بعد اپنے چیف سے رابطہ کیا۔ ہم جانتے ہیں اس حوالے سے آپ کو مرچیں لگی ہوں گی۔ مگر کیا کریں، ہوا تو یہی تھا۔ 

عقل ان کی اتنی ماری گئی ہے کہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ اگر کچھ جرنیل عاصم منیر سے بغاوت کرنے والے تھے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اب تک کورکمانڈرز کی سطح پر کوئی نئی تقریریاں نہیں ہوئیں۔ سازش تو ناکام ہوگئی ناں ؟ تو لاہور والے کور کمانڈر کے سوا کوئی کور کمانڈر اپنی پویشن سے ہٹایا کیوں نہیں گیا ؟  اور جنرل ساحر شمشاد مرزا اب تک اپنے عہدے پر کیا کر رہے ہیں ؟ ان کو تو کورٹ مارشل کے کٹرے میں ہونا چاہئے تھا  ! سالے چوتیا پٹواری !

 منقولہ 

محمد آصف سردار

Next Post Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url