عالمی حالات پاکستانی سیاست دان اور نظریہ پاکستان
عالمی حالات ، پاکستانی سیاست دان اور نظریہ پاکستان تحریر :خالد خان رند
اس وقت دنیا پھر میں ایک نیا بلاگ بننے جارہا ہے جس کی قیادت چین کر رہا ہے، اس بلاگ میں روس اور چین اہم ممالک ہیں اور اس کے علاوہ سعودی عرب، ایران ترکیه اور کئی اہم ممالک اس میں شامل ہونے جارہے ہیں، اس بلاگ سے امریکہ کی اجارہ داری اور ڈالر کی عالمی حیثیت کو شدید خطرہ لاحق ہیں، چین اور روس پہلے ہی ڈالر کی بجائے روبل اور چینی یوان میں کاروبار کر رہے ہیں، روس عالمی تجارت میں ڈالر نہیں لے رہا اور اپنا تیل یورپ کو روبل یا یوان میں بیچ رہا ہے ،
یہ جو نیا بلاگ بن رہا ہے اس میں پاکستان کی جغرافیائی حیثیت کی ایک خاص اہمیت ہے، اس کے علاوہ پاکستان کی عسکری قوت کی بھی ایک خاص اہمیت ہے، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان ایک ایٹمی طاقت بھی ہے،
اگر اس سارے عالمی تناظر میں دیکھیں تو امریکہ کبھی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ پاکستان چینی بلاگ میں چلا جائے اور امریکہ سے دور ہو، اور پاکستانی سیاست امریکہ کی تابع نہ ہو، یا یہاں ایسی حکومت ہو جو امریکہ مخالف ہو اور وہ امریکی ایجنڈے پر نہ چلے،
اس کے لئے امریکہ اس وقت پاکستان کی سیاست میں دخل اندازی کر رہا ہے، ہمارے کئی سیاسی قائدین اس کے پے رول پر ہیں،
یہ دیکھنے کے لئے کہ کون امریکہ پے رول پر ہیں یا امریکی مفادات اور ایجنڈے کے لئے کام کر رہے ہیں، ہمیں ان سیاسی جماعتوں کے منشور یا نعروں پر نہیں بلکہ ان کے عملی اقدامات پر غور کرنے کی ضرورت ہے،
اس کے علاوہ یاد رہے کہ عالمی طاقتیں شروع دن سے ہی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی مخالفت ہیں، ہمارے پڑوسی انڈیا پر کبھی بھی اس طرح ایٹمی پروگرام کی وجہ سے دباؤ نہیں ڈالا گیا جس طرح سے پاکستان مسلسل عالمی دباؤ میں رہا ہے،
پاکستان کی مسلح افواج اور انٹیلیجنس اداروں کو سلام پیش کیا جانا چاہئے جنہوں نے اپنے سائنس دانوں کے ساتھ مل کر اس ایٹمی پروگرام کو مکمل کیا، اور اسے باضابطہ پروگرام میں تبدیل کر کے پاکستان کو عالمی ایٹمی قوت تسلیم کروایا،
لیکن بات ختم نہیں ہوئی، اور عالمی خفیہ طاقتیں آج بھی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک اور ختم کروانے کے لئے مسلسل متحرک ہیں، اور وہ ایسے حالات بنانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ پاکستان ایٹمی طاقت نہ رہے، کیوں کہ ایٹمی پاکستان اور ایک طاقتور فوج کا مالک پاکستان عالمی استعماری قوتوں کو پسند نہیں ہے،
اور اس پر اگر پاکستان باضابطہ طور پر چینی بلاگ میں شامل ہو جاتا ہے اور ڈالر سے بھی جان چھڑا لیتا ہے تو پاکستان اقتصادی ترقی کر سکتا ہے، کیوں کہ چین عالمی طور پر جنگوں پر بلکہ تجارتی تعلقات پر یقین رکھتا ہے، اور اس نے اپنی تجارتی طاقت سے ساری دنیا کو جکڑ لیا ہے، دوسری طرف چین اپنے ہمنوا ممالک کی اقتصادی ترقی میں مددگار ہے،
اس وقت پاکستان کا جھکاؤ چین کی طرف ہے، اور چین کے پاکستان سے تعلقات بھی بہت پرانے ہیں،
سابق حکومت (پی ٹی آئی دور) میں پاکستان اور چین کے تعلقات کو نقصان پہنچا اور سی پیک جیسے پروگرام کو نقصان پہنچا لیکن موجودہ حکومت دوبارہ سے چین کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اور اس میں پاکستان کی عسکری قیادت کا دورہ چین اہمیت رکھتا ہے،
اس سارے پس منظر کو دیکھتے ہوئے ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ اس وقت پاکستان میں کیا سیاسی صورتحال ہے؟ اور سیاسی جماعتیں کس ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں،
ویسے تو پاکستان میں سب سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ امریکی مفادات کا زیادہ خیال رکھا ہے، بجائے پاکستان کے قومی مفادات کے، اور اس وقت بھی صورت حال کچھ ایسی ہی ہے،
لیکن اس وقت عالمی حالات پہلے جیسے نہیں ہیں، عالمی حالات میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں،
اور اس کی وجہ سے پاکستان کی سیاست میں بھی کچھ اسی طرح کی تبدیلیاں نظر آتی ہیں،
امریکہ سازش کا بیانیہ بنا کر عوام کو ہمنوا بنانے والے عمران خان دراصل امریکی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں،
اور یہ سب سمجھنے کے لئے کسی افلاطونی دانش کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ان کی حکومت کے دور میں ہونے والے سب اقدامات اور منظور ہونے والے بل اس بات کے گواہ ہیں، کہ وہ امریکی ایجنڈے پر کاربند رہے تھے یا کہ مخالف? ان کے دور حکومت میں پاکستان کے چین سے درینہ تعلقات میں خرابی پیدا ہوئی ، سی پیک پر کام رک گیا، لیکن ایک جمہوری عمل سے ان کی حکومت ختم ہونے پر انہوں نے عوام کو بے وقوف بناتے ہوئے، جھوٹ پر مبنی امریکی سازش کا بیانیہ بنا کر سادہ لوح عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا، اور اس کے ساتھ ساتھ عالمی استعماری قوتوں کے ایجنڈے پر کام شروع کرتے ہوئے عوام کو اپنی ہی افواج کے خلاف ورغلانے کا کام شدت سے شروع کر دیا، فوج کی کردار کشی کرتے ہوئے عوام کو ان کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش شروع کر دی،
اور اب کرپشن کے کیس میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد جو کچھ پی ٹی آئی نے کیا ہے، اس سے واضع طور پر نظر آرہا ہے کہ یہ روایتی انداز کی اقتدار کی جنگ نہیں بلکہ یہ عالمی طاقتوں کے ایجنڈے کی تکمیل کی کوشش ہے،
سرکاری املاک پر اور خاص کر عسکری قیادت اور عسکری املاک پر جتھوں کی صورت حملے شروع ہو گئے اور یہ وہ مقامات تھے جہاں ٹی ٹی پی، بلوچ لبریشن آرمی اور را جیسے پاکستان دشمن پہلے حملوں کی کوشش کر چکی ہیں، اور نظر یہ آتا ہے کہ یہ سب پہلے سے سوچے سمجھے منصوبے پر عمل ہو رہا ہے، اس طرح کی جتھہ بندی راتوں رات نہیں ہوتی،
اور بلکل اسی انداز کے مناظر اور حالات پر مبنی ہالی وڈ کی فلمیں بن چکی ہیں، پاکستان کے بارے ميں، ان فلموں میں دیکھایا گیا کہ اس طرح کے حملوں کے بعد امریکہ پاکستان میں آپریشن کر کے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو لے جاتا ہے،
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ان فلموں کی کہانیوں اور موجودہ حالات اور پی ٹی آئی کی فوج مخالف مہم کے مصنف کہیں ایک ہی تو نہیں ہیں؟؟؟
پاکستان کی سیاست میں فوج کا عمل دخل کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن فوج کے ادارے کے خلاف عوام کو حملے کرنے پر اکسانے کا مطلب خانہ جنگی ہے، اور پاکستان میں اس طرح کی خانہ جنگی صرف عالمی خفیہ قوتوں کی خواہش ہے، کسی سیاسی جماعت کی نہیں، کیوں کہ یہ اقتدار کی سیاسی جنگ نہیں بلکہ پاکستان سالمیت اور نظریہ پاکستان پر حملے ہیں
ہمیں بحثیت پاکستانی یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ایسے شخص کو ہم قومی راہنما قبول کر سکتے ہیں جو کہ بجائے قومی مفادات کے عالمی خفیہ طاقتوں اور امریکی ایجنڈے پر کام کر رہا ہو؟
اور یہ بات سمجھنے کے لئے کسی ارسطو و بقراط کی عقل درکار نہیں ہے، سادہ سی بات ہے، صرف مسلمان اور پاکستانی بن کر حالات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، سب بات واضح طور پر سمجھ آجائے گے،
پاکستان کی ساری قیادت کو چور کہنے اور عوام کو گمراہ کرنے والے عمران خان خود بھی سر سے پیر تک کرپشن میں لتھڑے ہوئے ہیں، ان کے دور حکومت میں پاکستان میں کرپشن میں اضافہ ہوا،
لیکن چور مچائے شور والی بات ہے، کہ عمران خان صاحب دوسروں کو تو چور کہتے ہیں لیکن اپنی چوری کو چوری نہیں سمجھتے،
پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا نے جھوٹ کا پروپیگنڈہ اتنی شدت اور منظم طریقے سے کیا ہے کہ وہ عام سادہ لوح عوام اور نوجوان نسل کو گمراہ کرنے میں کامیابی نظر آتے ہیں،
سادہ لوح نوجوان نسل کو شعور کے نام پر بے شعور کر دیا گیا ہے، اور اس بے شعور نسل کو شدت پسندی کی طرف دھکیل دیا گیا ہے،
نوجوانوں کو خود سے سوچنے کی اشد ضرورت ہے، بجائے سیاسی مداریوں کی بات سننے کے ان کو خود سے اپنی عقل استعمال کرتے ہوئے سب حالات اور واقعات پر غور کرنے کی ضرورت ہے،
غور کریں عمران خان کو گرفتار کیا جاتا ہے، اور اس کے فوراَ بعد مسلح جتھوں کی، کور کمانڈر ہاؤس، جی ایچ کیو اور ریڈیو پاکستان آئی ایس پی کے دفاتر پر یلغار کیا عوامی ردعمل ہے؟؟ نہیں بلکل نہیں کوئی بھی صاحب عقل اس پر یہی کہے گا کہ یہ پہلے سے طے شدہ منصوبہ تھا، پہلے ہی اس کی تیاری تھی، ورنہ عام سیاسی کارکن جانتا ہے کہ احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکلنا ٹائر جلانا تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن حساس مقامات پر منظم حملے ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی تھی، جس کا مکمل منصوبہ عمران خان کی گرفتاری سے پہلے ہی بن چکا تھا،
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سیاسی عمل تھا؟ یا ہے؟ یا پھر یہ عالمی خفیہ قوتوں کا پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے، کیوں کہ عام عوامی ردعمل میں کوئی اس طرح مخصوص حساس اور اہم مقامات پر اس طرح حملہ آور نہیں ہوتا،
پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں بہت سے اہم اور عوامی سطح پر پسندیدہ سیاست دان گرفتار بھی ہوئے، قتل بھی ہوئے، لیکن یہ سب نہیں ہوا، عوامی ردعمل آیا سڑکیں بلاک کی گئیں ہنگامے بھی ہوئے، لیکن اس طرح اہم حساس مقامات اور اداروں کو نشانہ نہیں بنایا گیا،
جو کچھ پی ٹی آئی نے کیا وہ عام عوامی ردعمل نہیں بلکہ مخصوص منصوبہ بندی سے ہوا، اور اس کا فائدہ پاکستان کے دشمنوں کو ہوا، اور شاید یہ سب کرنے کا مقصد بھی عالمی طور پر یہی دیکھنا تھا،
جس بات کا دکھ ہے وہ یہ کہ اس دہشتگردی میں میرے وطن عزیز کے عام سادہ لوح عوام کو استعمال کیا گیا، ان کو گمراہ کر کے استعمال کیا گیا،
اور یہ استعمال ہونے والے سب عام غریب لوگ ہیں، جو اس جمہوریت کے تماشے میں بے وقوف بنے،
کیا کبھی کسی قائد کی اولاد اور رشتہ دار بھی کبھی اس طرح کے کاموں میں آگے آئے ہیں؟ وہ خواہ بھٹو کے لئے ہو یا نوازشریف کے لئے، ولی خان کے لئے ہو یا مولانا فضل الرحمن کے لئے یا پھر عمران خان کے لئے،
عوام کو خود سوچنے کی ضرورت ہے کہ اپنے اقتدار کے لئے یا اپنے بیرونی آقاؤں کے ایجنڈے کی تکمیل کے ان سیاست دانوں کے آلہ کار نہ بنیں، کیوں کہ سب سیاست دانوں نے عوام کو جھوٹے خوابوں کے سوا کچھ نہیں نہیں دیا، وطن عزیز کو قرضوں کی دلدل اور عوام کو مہنگائی کی چکی میں پسنے کے لئے ڈال دیا گیا، لیکن یہ سب سیاست قائدین جو عوام کے درد اور پریشانیوں پر ہر وقت ہمیں میڈیا پر پریشان نظر آتے ہیں، یہ سب یہ بھی نہیں جانتے کہ بازار میں دال، گھی چال وغیرہ کی قیمت کیا ہے؟ 2500/ کا پیزا کھانے والوں نے کبھی اپنے ملازمین کی تنخواہوں کو 25000/30000 ہزار سے اوپر نہیں جانے دیا،
تو بتائیں یہ کیسے عوام کے ہمدرد ہیں یا ان کے دلوں میں کتنی غریبوں کے لئے ہمدردی ہے؟