Visit Our Official Web تفسیر صراط الجنان آیت 8/9/10 Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

تفسیر صراط الجنان آیت 8/9/10


 *وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَﭥ(8)

 ترجمۂ کنز الایمان

اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لائے اور وہ ایمان والے نہیں۔

تفسیر صراط الجنان

*{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ*:اورکچھ لوگ کہتے ہیں۔}  اس سے پہلی آیات میں مخلص ایمان والوں کا ذکر کیاگیا جن کا ظاہر و باطن درست اور سلامت تھا،پھر ان کافروں کا ذکر کیا گیا جو سرکشی اور عناد پر قائم تھے اور اب یہاں سے لے کرآیت نمبر20 تک منافقوں کا حال بیان کیا جا رہا ہے جو کہ اندرونِ خانہ کافر تھے اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے۔اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنی زبانوں سے اس طرح کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اورآخرت کے دن پر ایمان لے آئے ہیں حالانکہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں کیونکہ ان کا ظاہر ان کے باطن کے خلاف ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ منافق ہیں۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۸، ۱ / ۵۱)

            اس آیت سے چند باتیں معلوم ہوئیں :

(1)…جب تک دل میں تصدیق نہ ہو اس وقت تک ظاہری اعمال مؤمن ہونے کے لیے کافی نہیں۔

(2)… جو لوگ ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں اور کفر کا اعتقاد رکھتے ہیں سب منافقین ہیں۔

(3)… یہ اسلام اور مسلمانوں کیلئے کھلے کافروں سے زیادہ نقصان دہ ہیں۔

{وَ مِنَ النَّاسِ:اورکچھ لوگ۔}منافقوں کو ’’کچھ لوگ‘‘کہنے میں ا س بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ گروہ بہتر صفات اور انسانی کمالات سے ایسا عاری ہے کہ اس کا ذکر کسی وصف و خوبی کے ساتھ نہیں کیا جاتابلکہ یوں کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ ہیں۔ اسی لئے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو محض انسان یا صرف بشر کے لفظ سے ذکر کرنے میں ان کے فضائل و کمالات کے انکار کا پہلو نکلتا ہے، لہٰذا اس سے اجتناب لازم ہے۔اگرآپ قرآن پاک مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو صرف بشر کے لفظ سے ذکر کرنا کفار کاطریقہ ہے جبکہ مسلمان انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تذکرہ عظمت و شان سے کرتے ہیں۔

🟩🟨🟧🟦🟥🟪⬛⬜🟫🟩


 سورۃ البقرہ آیت  9

بسم اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۚ-وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَﭤ(9)

 ترجمۂ کنز الایمان

فریب دیا چاہتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کو اور حقیقت میں فریب نہیں دیتے مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں۔

 تفسیر صراط الجنان

{یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ : وہ اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔}اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اسے کوئی دھوکا دے سکے، وہ تمام پوشیدہ باتوں کا جاننے والا ہے ۔ یہاں مراد یہ ہے کہ منافقوں کے طرزِ عمل سے یوں لگتا ہے کہ وہ خدا کو فریب دینا چاہتے ہیں یا یہ کہ خدا کو فریب دینا یہی ہے کہ وہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو  دھوکا دینا چاہتے ہیں کیونکہ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   اللہ تعالٰی  کے نائب اور خلیفہ ہیں اور انہیں دھوکہ دینے کی کوشش گویا خدا کو دھوکہ دینے کی طرح ہے لیکن چونکہ اللہ  تعالیٰ نے اپنے حبیب  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کو  منافقین کے اندرونی کفر پر مطلع فرمایا تو یوں اِن بے دینوں کا فریب نہ خدا پر چلے، نہ رسول پراور نہ مومنین پر بلکہ درحقیقت وہ اپنی جانوں کو فریب دے رہے ہیں اور یہ ایسے غافل ہیں کہ انہیں ا س چیز کا شعور ہی نہیں۔

 ظاہر وباطن کا تضاد بہت بڑا عیب ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ ظاہر وباطن کا تضاد بہت بڑا عیب ہے۔ یہ منافقت ایمان کے اندر ہوتو سب سے بدتر ہے اور اگر عمل میں ہو تو ایمان میں منافقت سے تو کم تر ہے لیکن فی نفسہ سخت خبیث ہے، جس آدمی کے قول و فعل اور ظاہر و باطن میں تضاد ہوگا تو لوگوں کی نظر میں وہ سخت قابلِ نفرت ہوگا۔ ایمان میں منافقت مخصوص لوگوں میں پائی جاتی ہے جبکہ عملی منافقت ہر سطح کے لوگوں میں پائی جاسکتی ہے۔


🟩🟨🟧🟦🟥🟪⬛⬜🟫🟩


سورۃ البقرہ آیت 10

بسم اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔

فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌۙ-فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًاۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ(10)

 ترجمۂ کنز الایمان

ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ نے ان کی بیماری اور بڑھائی اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے بدلہ ان کے جھوٹ کا ۔

 تفسیر صراط الجنان

{فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ:ان کے دلوں میں بیماری ہے۔}اس آیت میں قلبی مرض سے مراد منافقوں کی منافقت اور حضور پرنور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے بغض کی بیماری ہے ۔ معلوم ہوا کہ بدعقیدگی روحانی زندگی کے لیے تباہ کن ہے نیز حضور اقدس  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان سے جلنے والا مریض القلب یعنی دل کا بیمار ہے۔

روحانی زندگی کے خطرناک امراض:

             جس طرح جسمانی امراض ہوتے ہیں اسی طرح کچھ باطنی امراض بھی ہوتے ہیں ، جسمانی امراض ظاہری صحت و تندرستی کے لئے سخت نقصان دہ ہوتے ہیں اور باطنی امراض ایمان اور روحانی زندگی کے لئے زہر قاتل ہیں۔ ان باطنی امراض میں سب سے بدتر تو عقیدے کی خرابی کا مرض ہے اور اس کے علاوہ تکبر، حسد، کینہ اور ریاکاری وغیرہ بھی انتہائی برے مرض ہیں۔ہر مسلمان کوچاہئے کہ باطنی امراض سے متعلق معلومات حاصل کر کے ان سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرے اوراس کے لئے بطور خاص امام غزالی   رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ   کی مشہور کتاب احیاء العلوم کی تیسری جلد کامطالعہ بہت مفید ہے۔

{فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا: تو اللہ نے ان کی بیماری میں اور اضافہ کردیا۔} مفسرین نے اس اضافے کی مختلف صورتیں بیان کی ہیں ،ان میں سے 3صورتیں درج ذیل ہیں :

(1)…  ریاست چھن جانے کی وجہ سے منافقوں کو بہت قلبی رنج پہنچا اور وہ دن بہ دن حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی ثابت قدمی اور غلبہ دیکھ کر حسد کی آگ میں جلنے لگے توجتنا نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا  غلبہ ہوتا گیا اور آپ   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  لوگوں  میں مقبول ہوتے گئے اتنا ہی اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے رنج و غم میں اضافہ کر دیا ۔

(2)…منافقوں کے دل کفر،بد عقیدگی اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   سے  عداوت و دشمنی سے بھرے ہوئے تھے ،اللہ تعالیٰ نے اُن کی اِن چیزوں میں اس طرح اضافہ کر دیا کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی تاکہ کوئی وعظ و نصیحت ان پر اثر انداز نہ ہو سکے۔

(3)…جیسے جیسے شرعی احکام اور نزول وحی میں اضافہ ہوا اور مسلمانوں کی مدد و نصرت بڑھتی گئی ویسے ویسے ان کاکفر بڑھتا گیا بلکہ ان کا حال تو یہ تھا کہ کلمہ شہادت پڑھنا ان پر بہت دشوار تھا اور اوپر سے عبادات میں اضافہ ہو گیا اورجرموں کی سزائیں بھی نازل ہو گئیں جس کی وجہ سے یہ لوگ بہت بے چین ہو گئے تھے۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰، ۱ / ۵۵)

{وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ ﳔ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ: اور ان کے لئے ان کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے دردناک عذاب ہے۔}

یعنی اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان لانے کا جھوٹا دعویٰ کرنے کی وجہ سے ان کے لئے جہنم کا دردناک عذاب ہے۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۲۶)

جھوٹ بولنے کی وعید اور نہ بولنے کا ثواب:

اس آیت سے معلوم ہوا کہ جھوٹ بولنا حرام ہے اور اس پردردناک عذاب کی وعید ہے لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اس سے بچنے کی خوب کوشش کرے۔حضرت  عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   نے  ارشاد فرمایا’’سچائی کو(اپنے اوپر) لازم کرلو، کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے۔ آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اورگناہ جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ  تعالیٰ  کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ۔۔۔ الخ، باب قبح الکذب۔۔۔ الخ، ص۱۴۰۵، الحدیث: ۱۰۵(۲۶۰۷))

حضرت انس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور وہ باطل ہے (یعنی جھوٹ چھوڑنے کی چیز ہی ہے) اس کے لیے جنت کے کنارے میں مکان بنایا جائے گا۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی المراء، ۳ / ۴۰۰، الحدیث: ۲۰۰۰)

اپنی صبح کا آغاز تلاوت قرآن پاک ترجمہ و تفسیر سے کریں 

ترجمہ و تفسیر پڑھنے کے لئے  ہماری ویب سائٹ کا دورہ کریں 

Next Post Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url