صراط الجنان فی تفسیر القرآن آیت 17 تا 21
سورۃ البقرہ آیت 17_18
مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًاۚ-فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ(17)صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ(18)
ترجمۂ کنز الایمان
ان کی کہاوت اس کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی تو جب اس سے آس پاس سب جگمگا اٹھا اللہ ان کا نور لے گیا اور انہیں اندھیریوں میں چھوڑ دیا کہ کچھ نہیں سوجھتا ۔بہرے گونگے اندھے تو وہ پھر آنے والے نہیں۔
تفسیر صراط الجنان
{ مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا: ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی۔}یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے کچھ ہدایت دی یا اُس پر قدرت بخشی پھر انہوں نے اسے ضائع کردیا اور ابدی دولت کو حاصل نہ کیا ،ان کا انجام حسرت و افسوس اور حیرت و خوف ہے اس میں وہ منافق بھی داخل ہیں جنہوں نے اظہارِ ایمان کیا اور دل میں کفر رکھ کر اقرار کی روشنی کو ضائع کردیا اور وہ بھی جو مومن ہونے کے بعد مرتد ہوگئے اور وہ بھی جنہیں فطرتِ سلیمہ عطا ہوئی اور دلائل کی روشنی نے حق کو واضح کیا مگر انہوں نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا اور گمراہی اختیار کی ہیں۔
جب حق کو سننے ، ماننے، کہنے اور دیکھنے سے محروم ہوگئے تو کان، زبان، آنکھ سب بیکار ہیں۔
🔶🔴🟠🟡🟢🔵🟣⚫🟣🔵🟢🟡🟠🔴🔶
سورۃ البقرہ آیت 20-19
اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْهِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَرْقٌۚ-یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِؕ-وَ اللّٰهُ مُحِیْطٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ(19)یَكَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَهُمْؕ-كُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَهُمْ مَّشَوْا فِیْهِۗۙ-وَ اِذَاۤ اَظْلَمَ عَلَیْهِمْ قَامُوْاؕ-وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَ اَبْصَارِهِمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(20)
ترجمۂ کنز الایمان
یا جیسے آسمان سے اترتا پانی کہ اس میں اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رہے ہیں کڑک کے سبب موت کے ڈر سے اور اللہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے ۔بجلی یوں معلوم ہوتی ہے کہ ان کی نگاہیں اچک لے جائے گی جب کچھ چمک ہوئی اس میں چلنے لگے اور جب اندھیرا ہوا کھڑے رہ گئے اور اللہ چاہتا تو ان کے کان اور آنکھیں لے جاتا بیشک اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔
تفسیر صراط الجنان
{اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ:یا جیسے آسمان سے بارش۔} ہدایت کے بدلے گمراہی خریدنے والوں کی یہ دوسری مثال بیان کی گئی ہے اور یہ ان منافقین کا حال ہے جو دل سے اسلام قبول کرنے اور نہ کرنے میں متردد رہتے تھے ان کے بارے میں فرمایا کہ جس طرح اندھیری رات اور بادل و بارش کی تاریکیوں میں مسافر متحیر ہوتا ہے، جب بجلی چمکتی ہے توکچھ چل لیتا ہے جب اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑا رہ جاتا ہے اسی طرح اسلام کے غلبہ اور معجزات کی روشنی اور آرام کے وقت منافق اسلام کی طرف راغب ہوتے ہیں اور جب کوئی مشقت پیش آتی ہے تو کفر کی تاریکی میں کھڑے رہ جاتے ہیں اور اسلام سے ہٹنے لگتے ہیں اور یہی مقام اپنے اور بیگانے ،مخلص اور منافق کے پہچان کا ہوتا ہے۔منافقوں کی اسی طرح کی حالت سورۂ نور آیت نمبر48اور49میں بھی بیان کی گئی ہے۔
{عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ : اللہ تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے۔}شے اسی کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ چاہے اور جو مشیت یعنی چاہنے کے تحت آسکے۔ ہر ممکن چیز شے میں داخل ہے اور ہر شے اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے اورجو ممکن نہیں بلکہ واجب یامحال ہے اس سے اللہ تعالیٰ کے ارادہ اور قدرت کا تعلق ہی نہیں ہوتا جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات واجب ہیں اس لیے قدرت کے تحت داخل نہیں مثلاً یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو اپنا علم ختم کرکے بے علم ہوجائے یا معاذاللہ جھوٹ بولے۔ یاد رہے کہ ان چیزوں کا اللہ تعالیٰ کی قدرت کے تحت نہ آنا اس کی قدرت میں نقص و کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ ان چیزوں کا نقص ہے کہ ان میں یہ صلاحیت نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے متعلق ہوسکیں۔
🔶🔴🟠🟡🟢🔵🟣⚫🟣🔵🟢🟡🟠🔴🔶
سورۃ البقرہ آیت 21
بسم اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(21)
ترجمۂ کنز الایمان
اے لوگو اپنے رب کو پوجو جس نے تمہیں اور تم سے اگلوں کو پیدا کیا یہ امید کرتے ہوئے کہ تمہیں پرہیزگاری ملے ۔
تفسیر صراط الجنان
{ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ:اے لوگو! ۔} سورۂ بقرہ کے شروع میں بتایا گیا کہ یہ کتاب متقین کی ہدایت کے لیے نازل ہوئی، پھر متقین کے اوصاف ذکر فرمائے ، اس کے بعد اس سے منحرف ہونے والے فرقوں کا اور ان کے احوال کا ذکر فرمایا تاکہ سعادت مند انسان ہدایت و تقویٰ کی طرف راغب ہو اور نافرمانی و بغاوت سے بچے، اب تقویٰ حاصل کرنے کا طریقہ بتایا جارہا ہے اور وہ طریقہ عبادت اور اطاعتِ الٰہی ہے۔ ’’ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ‘‘ کے ذریعے تمام انسانوں سے خطاب ہے اور اس بات کااشارہ ہے کہ انسانی شرافت اسی میں ہے کہ آدمی تقویٰ حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ کا بندہ بنے ۔
عبادت کی تعریف:
عبادت اُس انتہائی تعظیم کا نام ہے جو بندہ اپنی عبدیت یعنی بندہ ہونے اور معبودکی اُلوہیت یعنی معبود ہونے کے اعتقاد اور اعتراف کے ساتھ بجالائے۔یہاں عبادت توحید اور اس کے علاوہ اپنی تمام قسموں کو شامل ہے۔کافروں کو عبادت کا حکم اس معنیٰ میں ہے کہ وہ سب سے بنیادی عبادت یعنی ایمان لائیں اور اس کے بعد دیگر اعمال بجالائیں۔
{لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ: تاکہ تمہیں پرہیزگاری ملے۔} اس سے معلوم ہوا کہ عبادت کا فائدہ عابد ہی کو ملتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اس کو عبادت یا اور کسی چیز سے نفع حاصل ہو ۔
🔶🔴🟠🟡🟢🔵🟣⚫🟣🔵🟢🟡🟠🔴🔶