صراط الجنان فی تفسیر القرآن آیت 11/12/13
سورۃ البقرہ۔ آیت 11-12
بسم اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ°
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِۙ-قَالُوْۤا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ(11)اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَ لٰـكِنْ لَّا یَشْعُرُوْنَ(12)
ترجمۂ کنز الایمان
اورجو اُن سے کہا جائے زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں ہم تو سنوارنے والے ہیں۔سنتا ہے وہی فسادی ہیں مگر انہیں شعور نہیں۔
تفسیر صراط الجنان
{لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ:زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں ارشاد فرمایا کہ جب ایمان والوں کی طرف سے ان منافقوں کو کہا جائے کہ باطن میں کفر رکھ کر اور صحیح ایمان لانے میں پس و پیش کر کے زمین میں فساد نہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ تم ہمیں ا س طرح نہ کہو کیونکہ ہمارا مقصد تو صرف اصلاح کرناہے ۔ اے ایمان والو! تم جان لو کہ اپنی اُسی روش پر قائم رہنے کی وجہ سے یہی لوگ فساد پھیلانے والے ہیں مگر انہیں اس بات کاشعور نہیں کیونکہ ان میں وہ حس باقی نہیں رہی جس سے یہ اپنی اس خرابی کوپہچان سکیں۔
منافقوں کے طرزِ عمل سے یہ بھی واضح ہوا کہ عام فسادیوں سے بڑے فسادی وہ ہیں جو فساد پھیلائیں اور اسے اصلا
کا نام دیں۔ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اصلاح کے نام پر فساد پھیلاتے ہیں اور بدترین کاموں کو اچھے ناموں سے تعبیر کرتے ہیں۔ آزادی کے نام پر بے حیائی، فن کے نام پر حرام افعال، انسانیت کے نام پر اسلام کو مٹانا اورتہذیب و تَمَدُّن کا نام لے کر اسلام پر اعتراض کرنا، توحید کا نام لے کر شانِ رسالت کا انکار کرنا، قرآن کا نام لے کر حدیث کا انکار کرنا وغیرہاسب فساد کی صورتیں ہیں۔
اپنی صبح کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کریں ترجمہ و تفسیر صراط الجنان پڑھنے کے لئے گروپ جوائن کریں ہمارا مقصد صرف اور صرف معاشرے کی اصلاح کرنا ہے
🟨🟧🟦🟥🟪⬛⬜🟫🟩
سورۃ البقرہ آیت 13
بسم اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ°
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ كَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَهَآءُؕ-اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَآءُ وَ لٰـكِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ(13)
ترجمۂ کنز الایمان
اور جب ان سے کہا جائے ایمان لاؤجیسے اور لوگ ایمان لائے ہیں تو کہیں کیا ہم احمقوں کی طرح ایمان لے آئیں؟ سنتا ہے! وہی احمق ہیں مگر جانتے نہیں ۔
تفسیر صراط الجنان
{كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ: جیسے اور لوگ ایمان لائے۔} یہاں ’’اَلنَّاسُ‘‘ سے صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور ان کے بعد ان کی کامل اتباع کرنے والے مراد ہیں۔
نجات والے کون لوگ ہیں ؟:
اس آیت میں بزرگانِ دین کی طرح ایمان لانے کے حکم سے معلوم ہوا کہ ان کی پیروی کرنے والے نجات والے ہیں اوران کے راستے سے ہٹنے والے منافقین کے راستے پر ہیں اوریہ بھی معلوم ہوا کہ ان بزرگوں پر طعن و تشنیع کرنے والے بہت پہلے سے چلتے آرہے ہیں۔ اس آیت کی روشنی میں صحابہ و ائمہ اور بزرگانِ دین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے متعلق اپنا طرزِ عمل دیکھ کر ہر کوئی اپنا راستہ سمجھ سکتا ہے کہ صحابہ کے راستے پر ہے یا منافقوں کے راستے پر؟نیز علماء و صلحاء اور دیندارلوگوں کوچاہئے کہ وہ لوگوں کی بدزبانیوں سے بہت رنجیدہ نہ ہوں بلکہ سمجھ لیں کہ یہ اہلِ باطل کا قدیم دستور ہے۔نیز دینداروں کو بیوقوف یا دقیانوسی خیالات والا کہنے والے خود بے وقوف ہیں۔
صحابہ کرام کی بارگاہ الہٰی میں مقبولیت:
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے ایسے مقبول بندے ہیں کہ ان کی گستاخی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے خود جواب دیا ہے۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بارے میں حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’میرے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو گالی گلوچ نہ کرو ،(ان کا مقام یہ ہے کہ )اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا(اللہ تعالیٰ کی راہ میں) خرچ کرے تو ا س کا ثواب میرے کسی صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے ایک مُد (ایک چھوٹی سی مقدار)بلکہ آدھامُد خرچ کرنے کے برابر بھی نہیں ہو سکتا ۔(بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: لو کنت متخذا خلیلاً، ۲ / ۵۲۲، الحدیث: ۳۶۷۳)
اور اللہ تعالیٰ کے اولیاء کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’جو میرے کسی ولی سے دشمنی کرے، اسے میں نے لڑائی کا اعلان دے دیا۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع، ۴ / ۲۴۸، الحدیث: ۶۵۰۲)
اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی بے ادبی اور گستاخی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اولیاء کے بارے میں غلط عقائد و نظریات رکھتے ہیں۔
🟨🟧🟦🟥🟪⬛⬜🟫🟩